تازہ ترین


ریاض(2 اپریل 2020 ء) اس وقت دُنیا بھر کو کورونا کی مہلک اور خطرناک وبا کا سامنا ہے جس کا اثر سعودی مملکت پر بھی پڑا ہے۔ کورونا کی روک تھام کی خاطر مملکت میں گزشتہ کئی ہفتوں سے عمرہ کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جس سے اسلامی دُنیا کے لاکھوں مسلمان متاثر ہوئے ہیں۔ سعودی وزیر حج و عمرہ محمد صالح بن طاہر بنتن کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ رواں سال حج بیت اللہ کے خواہش مند افراد اپنی تیاریاں روک دیں اور فضائی ٹکٹس کی بکنگ بھی فی الحال نہ کروائیں کیونکہ اس بار کورونا کے باعث حج کے حوالے سے حالات غیر یقینی ہیں۔
سعودی وزیر کے اس اعلان نے تقریباً 20 لاکھ فرزندانِ توحید کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے جنہیں اس بار حج بیت اللہ کی عظیم سعادت کی خاطر سعودی سرزمین پر قدم دھرنے کی خوش نصیبی حاصل ہونی ہے۔
اس وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں بھی باجماعت نماز میں چند افراد کو ہی شرکت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ معروف خلیجی جریدے مڈل ایسٹ آئی کی جانب سے حج کی تاریخ کے حوالے سے ایک انتہائی معلوماتی تحریر شائع کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ سال 2020ء میں حج بیت اللہ نہ ہوا تو یہ اسلامی تاریخ کا اکلوتا واقعہ نہیں ہو گا بلکہ ماضی میں بھی درجنوں بار ایسا ہو چکا ہے۔
البتہ 1932ء سے جب سے سعودی عرب کی ریاست وجود میں آئی ہے، حج بیت اللہ ہر سال ادا کیا گیا، کبھی اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔حتیٰ کہ سعودی عرب کے وجود میں آنے سے چند سال قبل 1917-18 ء میں دُنیا بھر میں سپینش فلو کی وبا پھیلی تھی جس کے باعث پانچ کروڑ سے زائد انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے، تب بھی حج بیت اللہ کی ادائیگی کی گئی تھی۔اگر رواں سال 2020ء میں خدانخواستہ فرزندان توحید کو حج کی ادائیگی کا موقع نہ مِلا تو یہ اسلامی تاریخ میں اس نوعیت کا 40 واں واقعہ ہو گا۔
مڈل ایسٹ آئی کی جانب سے ماضی میں حج کی منسوخی کے سال اور ان کی وجوہات بھی بتائی گئی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
865عیسوی میں عباسی خلافت کے مخالف اسماعیل بن یوسف السفاک نے مکہ مکرمہ کی تقدیس کو نظر انداز کرتے ہوئے عرفات کی پہاڑیوں پر موجود حاجیوں پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں متعدد حاجی شہید ہوئے۔ جس کے باعث حج کو ملتوی کر دیا گیا۔
930ء میں بحرین پر قابض قرامطی (اسماعیلی) فرقے کے سردار ابو طاہر الجنبی نے مکّہ مکرمہ پر بڑے لشکر کے ساتھ حملہ کر دیا۔تاریخ دانوں کے مطابق اس ہولناک فوجی حملے کے دوران 30 ہزار نہتے حاجیوں کو شہید کر دیا اور سینکڑوں حاجیوں کی نعشوں کو زمزم کے متبرک کنوئیں میں پھینک کر اس کا تقدس پامال کیا گیا۔ ان ظالموں نے اسی پر بس نہیں کی، بلکہ مسجد الحرام میں بھی لُوٹ مار کی اور واپس جاتے وقت خانہ کعبہ سے حجر اسود بھی اپنے ساتھ بحرین لے گئے۔
اس واقعے کے بعد کئی سال تک حج بیت اللہ نہ ہوا، تاہم جب بحرین سے حجر اسود واپس لا کر خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا تو اس کے بعد اگلے سالوں میں دوبارہ حج کے مناسک کی ادائیگی شروع ہو گئی۔ 983ء اور اس کے بعد کے کئی سال بھی ایسے تھے جب حج نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ ایران و عراق اور دیگر اسلامی علاقوں پر قائم عباسی خلافت اور شام کی فاطمی خلافت کی آپسی جنگیں تھیں، جن کے دوران حاجیوں کو مکہ مکرمہ جانے سے روک لیا جاتا تھا۔
مسلمانوں کی اس آپسی خانہ جنگی کے باعث 983ء سے 990ء تک کے مسلسل آٹھ سالوں میں حج کی ادائیگی نہ ہوئی۔ تاہم 991ء میں حج کے دوران ایک بار پھر بیت اللہ میں لاکھوں مسلمان اُمڈ پڑے۔ اس کے بعد اگلی کئی صدیوں تک کبھی حج بیت اللہ منسوخ نہ ہوا۔یہاں یہ بتاتے چلیں کہ صرف جنگوں، سیاسی تنازعات اور قتلِ عام کے باعث ہی حج منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ وسیع پیمانے پر پھُوٹنے والی وباؤں نے بھی کئی بار حج منسوخ کروا دیا۔
1831ء میں برصغیر پاک و ہند میں طاعون کی وبا پھیلی ، اس خطے کے عازمین جب حج کی خاطر مکہ مکرمہ پہنچے تو متاثرہ افراد کے ساتھ ساتھ اس خوفناک وبا نے مکہ مکرمہ میں بھی ہزاروں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تاریخی حوالوں کے مطابق طاعون کے باعث حج کے آغاز میں ہی مکہ میں موجود تین چوتھائی حاجی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان سنگین حالات کے باعث مناسک حج منسوخ کر دیئے گئے۔
اس واقعے کے محض چھ سال بعد ایک بار وباؤں نے سرزمین حجاز کا رُخ کر لیا۔ 1837ء سے 1858ء کے دو عشروں کے درمیان وقتاً فوقتاً وبائیں جنم لیتی رہیں، جس کے باعث اس عرصے میں سات بار حج کی ادائیگی نہ ہو سکی۔ پہلے 1837ء میں مکہ میں طاعون کی وبا پھُوٹی جس کے باعث 1840ء تک حج ادا نہ ہوا۔ پھر 1846ء میں مکہ کے رہائشیوں کو ہیضہ کی وبا نے گھیر لیا، اس مہلک وبا نے 15 ہزار لوگوں کی زندگیوں کاخاتمہ کر دیا۔
جس کے باعث 1849ء تک حج کی ادائیگی روک دی گئی۔ آخر 1850ء میں وبا کے خاتمے کے بعد لوگوں کو سُکھ کا سانس نصیب ہوا اور اس سال لاکھوں افراد نے حج کی ادائیگی کی۔1858ء میں ایک بار پھر ہیضہ کی وبا عازمین حج کی صورت میں مکہ مکرمہ تک چلی آئی ، جس کے باعث ہلاکتیں شروع ہو گئیں تو لوگوں کا حج مکمل نہ ہو سکا۔ کہا جاتا ہے کہ مصری عازمین حج اس صورت حال میں بھاگ کھڑے ہوئے ، جنہوں نے پھر مصر کے بحیرہ احمر کے ساحلوں پر پہنچ کر ہی سُکھ کا سانس لیا۔


Post a Comment

Previous Post Next Post